اتوار، 22 مارچ، 2015

خداوندانِ مکتب کے ظلم و جفا کی داستان

 آیت اللہ خمینی کے نام اُن کے بڑے بھائیآیت اللہ مرتضیٰ پسندیدہ کا شکایت نامہ - ولی فقیہ کی حکومت میں پنپنے والی بدعنوانیوں اور ظلم و جفا کی روداد
ویسے تو رشتے میں آیت اللہ مرتضیٰ پسندیدہ آیت اللہ خمینی کے بڑے بھائی تھے لیکن درحقیقت وہ حقِ پدری رکھتے تھے۔ چونکہ ان دونوں کے والد سید مصطفیٰ آقائے خمینی کے بچپنے کے ایام میں ہی اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے تھے اس لئے آقائے مرتضیٰ پسندیدہ نے باپ بن کر آقائے خمینی کی تربیت و نگہداشت کی ۔ انقلاب سے پہلے  آقائے خمینی آیت اللہ پسندیدہ کے شاگردوں میں سے تھے۔
نام نہاد اسلامی انقلاب کے بعد حالات بدل گئے چھوٹے بھائی ایک مملکت کے تام الاختیار حاکم بن گئے اور یہیں سے شاید دونوں بھائیوں کے درمیان جسمانی اور فکری فاصلے بڑھنے لگے۔ آقائے خمینی ہر روز انتقام جوئی کینہ توزی اور خودپسندی کے دلدل میں پھنستے گئے لیکن آیت اللہ پسندیدہ نے نہ صرف خود کو کافی حد تک ان معاملات سے دور رکھا بلکہ چھوٹے بھائی کو نصیحت و تنبیہ بھی کرتے رہےمگر ایک مطلق العنان بادشاہ کب کس کی بات سنتا ہے۔ بقول مولانا رومی : برسماع راست ہرکس چیر نیست (ہر کسی کے کان کا سوراخ سالم نہیں ہوتا)۔ ذیل میں آیت اللہ پسندیدہ کا انہی نصیحتوں اور تنبیہوں پر مشتمل ایک خط  کا اردو ترجمہ پیش کرتے ہیں۔
خداوندانِ مکتب کے ظلم و جفا کی داستان!
ہر طرف سے آہ و نالوں کی  آواز سے کان بہرے ہوئے جا رہے ہیں اور عمامہ پوش حکام کے لئے لوگوں کے دلوں سے نکلنے والی بدعاؤں نے پورے عالم کو گھیر رکھا ہے۔ جو چیزیں ہم ہر روز دیکھتے ہیں اور جو خبریں ہر روز  ہمارے کانوں تک پہنچتی ہیں ان سے ہویدا ہے کہ لوگوں کے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھے ہوئے  ہیں اور وہ ماضی کے حالات کی واپسی کے لئے دعائیں کر رہےہیں۔ کیا ان آہ و نالوں کی صدائیں آپ تک بھی پہنچ رہی ہیں؟ یا ماشاء اللہ سے آپ کے گرد بندھے ہوئے حصار  کی وجہ سے آپ کی حکایت بھی اس چرواہے کے مانند ہے جس کے ریوڑ پر بھیڑیا حملہ کرتا ہے  لیکن چرواہا بے خبری کے عالم میں اپنی پسندیدہ بھیڑ  کا دودھ  دوہنے میں مصروف رہتا ہے اور اپنی جگہ سے ہلنا بھی پسند نہیں کرتا، یہاں تک کہ وہ بھیڑیا چرواہے تک بھی پہنچ جاتا ہے اور پہلے اُس کی پسندیدہ بکری کو اپنے پنجوں سے لہولہان کرتا ہے اور بعد میں خود اُس کو۔
جس دن خمین میں جمہوری (اسلامی) پارٹی کے حکم اور تمہید و سازش سے، کہ جس کے متعلق میرا نہیں خیال کہ آپ اس سے بے خبر ہونگے، میرے سر سے عمامہ کھینچا گیا اور میرے ساتھ کسی قسم کی اہانت  و تحقیر سے گریز نہیں کیا گیا۔  میں نے ذرا بھی شکوہ نہ کیا کہ اپنے جد امجد کے حالات میری نظروں کے سامنے تھے۔ جس دن اُس مسکین سید کو، جوصرف خدمت کا ارادہ رکھتا تھا اور آپ نے خود اُس کے بارے میں سو بارکہا تھا کہ مجھے اپنے بیٹوں سے بھی زیادہ عزیز ہے، اِس بے آبروئی کے ساتھ صدارت کے عہدے سے برطرف کر دیا اور ایک بدعاقبت، بدبخت شخص کو، جوکہ ایک کاروانسرائے چلانے کا بھی اہل نہیں تھا، اس عظیم مملکت کی صدارت کا عہدہ سونپ دیا، تو میں نے آپ سے کہا تھا کہ یہ شیاطین کچھ اور ارادے رکھتے ہیں اور اس کٹھ پتلی کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
لیکن آپ نے میری صلح آمیز باتوں پر کان دھرنے کی بجائے ترش روئی کا مظاہرہ کیا اور اپنے بڑے بھائی کی حرمت کا بھی پاس نہ کیا۔ میں نے عقیل ابن ابی طالب کی طرح مال و جاہ و مقام کا مطالبہ تو نہیں کیا تھا کہ آپ نے میرے دل کو زخمی و داغدار کرنے کا حکم دیا اور اس بڑھاپے میں میرے ساتھ ایسا توہین آمیز سلوک کیا گیا جس کی جراَت شاہ کے زمانے میں بھی کوئی نہیں کر سکتا تھا۔
جس دن آپ نے حکم دیا کہ ووٹ کے تمام صندوقوں کو علی آقا خامنہ ای کے نام کھولے جائیں، میں اور دو تین ہمدرد لوگوں نے، کہ جن میں سے کم از کم ایک فرد یعنی شیخ علی آقا تہرانی، جوکہ بیس سال تک آپ کے شاگردِ خاص اور موردِ شفقت رہا تھا، آپ کو لکھا کہ یہ انتخاب ایران کو برباد کر دے گا۔ آپ نے ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیا۔ اب آپ وہ کچھ دیکھ رہے ہیں جو قابلِ دید نہیں۔
اس قدر خون بہایا گیا، اتنا ظلم و ستم کیا گیا کہ ان کو یاد کرکے میں لرز جاتا ہوں کہ مبادا اس خون کا ایک قطرہ آپ کے بھائی ہونے کی حیثیت سے میرے دامن کو نہ پکڑ لے۔ صرف اس وجہ سے کہ آپ نے اسلام اور ایران کے ہمدرد لوگوں کی بات سننے کی بجائے شیاطین کی بات پر توجہ دی۔
آپ کس طرح مسندِ ولایت پر براجمان  ہیں جبکہ  رفسنجانی، مشکینی، صانعی جیسے بدنام لوگوں اور اُس بدکار شیخ گیلانی و موسوی تبریزی جیسے جلادوں اور درجنوں و درجنوں خبیث اور بدعہد لوگوں کو طاقت و مقام عنایت کرتے ہو۔ درحالیکہ ساداتِ عالی قدر، سبطِ افتخار ازلی تشیع، حاج آقا حسن قمی، حاج آقا حسین قمی طاب ثراہ  اور آقائے حاج سید کاظم شریعتمداری، شیعیانِ مولا علی کے برحق مرجع کو اُس حقارت کے ساتھ نظربند کرتے ہو اور ان سے مرجعیت چھین لیتے ہو، یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے بیس سال پہلے میرے اشک و نالوں کی وجہ سے آپ کی مرجعیت پر مہرِ تصدیق ثبت کرکے شاہ کوبھیجا تھا تاکہ آپ اہانت آمیز برتاؤ اور اذیت و آزار سے بچ جائیں۔
آپ خود بہتر جانتے ہیں کہ میں شروع ہی سے ملکی اور فوجی امور میں علماء کی مداخلت کا مخالف تھا اور آپ سے کہا تھا کہ جب ہم حکومتی معاملات کے ذمہ داربن جائیں اور اگر ہماری کارکردگی عوام کی خواہشات کے مطابق نہ ہوتو تمام نفرتوں کا رخ ہماری طرف مڑے گا اور سرانجام اسلام کو نقصان پہنچے گا۔ کیا آج ہمیں اسی صورتحال کا سامنا نہیں؟ یہ عوام جو اسلام کی راہ میں اپنی جان سے  بھی گزرنے کو تیار رہتے تھے، اور شاہ کے زمانے میں ماڈرن لوگ، کاروباری لوگ، طلباء ، مرد اور عورتیں دینی شعائر کا احترام کرتے تھے، آج نہ دین کی طرف  انہیں کوئی رغبت ہے اور  نہ ہی شعائر دینی کے لئے ان کی نظر میں کوئی قدروقیمت باقی رہ گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر دین یہی ہے جو اس جمہوری اسلامی کے ذمہ داران نے لاگو کیا ہوا ہے تو بہتر ہے کہ ہم اس دین سے کافر ہوجائیں اور مسلمان کا نام ہی ہم سے ہٹ جائے۔
بعض نا اہل منبرپڑھنے والے مقررین اور مدرسین کی غلط سیاستوں کی وجہ سے آج ایران دنیا میں ذلیل و خوار ہو چکا ہے، یہاں تک کہ آج کوئی بھی ہمارا دوست نہیں۔  کچھ عرصہ پہلے  میں پاکستان سے آئے ہوئے چند علماء سے گفتگو کر رہا تھا، وہ ایران کی حالت زار پر گریہ کناں تھے اور کہہ رہے تھے کہ انقلاب سے پہلے ہمارے ملک میں لوگ شیعہ کی حیثیت و مقام کے قائل تھے، لیکن اب جیسے ہی ہم شیعہ کا نام لیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ بلاشک ایران جیسا! آقائے حاج آقا صدر (بنی صدر) مجھ سے کہہ رہے تھے کہ لبنان کے لوگ، جو آقا موسیٰ صدر کے کھو جانے کے بعد ایران سے کچھ توقعات وابستہ کئے ہوئے تھے، آج ہم سے بیزار ہوچکے ہیں۔ یہ احمقانہ بات نہیں  کہ ہم اسرائیل سے اسلحہ خریدیں اور پھر اسرائیل سے جنگ کرنے اور جنوبی لبنان کی آزادی کی بات کریں؟میں (ایران عراق ) جنگ اور اس کے مسائل کے بارے میں بات نہیں کروں گا کہ اس مثنوی کے لئے ستر من کاغذ درکار ہے، صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ (اعلیٰ حکام کے) بعض فرزندان و نورچشمان،جنگ کے نام پر اور جنگ زدگان کی مدد کے نام پرمسلمانوں کے بیت المال پر کس طرح ہاتھ صاف کر چکے ہیں۔
آپ سے ملاقات کے لئے وقت مانگتے ہوئے مجھے تین مہینے سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے ، لیکن آپ کے دفتر والے مسلسل کہتے ہیں کہ آپ مصروف ہیں اور وقت نہیں۔ دوسری طرف دیکھتا ہوں کہ ہر روز فلاں گاؤں کے ملُّااور ڈمکاں قصبے کے قاضی کو شرف باریابی بخشا جا رہا ہے۔ یقیناً ان لوگوں کے لبوں پر آپ کی مدح و ثنا کے علاوہ اور کوئی بات نہیں ہوگی اور میری بدبختی یہ کہ شاید چونکہ خداوند تبارک نے مجھے مدح سرائی کی زبان نہیں دی ہے، اپنے بھائی کی دیدار سے بھی محروم رہتا ہوں۔
مجھے معلوم ہے کہ اس خط کو ارسال کرنے کے بعد میری سختیوں اور پریشانیوں میں اضافہ ہوجائے گا لیکن چونکہ کچھ دنوں سے مجھے یہ احساس ہورہا ہے کہ حق تعالیٰ میری آرزو پوری کرنے والا ہے اور اس جہنمِ فانی کو چھوڑنے کی اجازت مرحمت فرمائے گا،  لہذا وصیت یا نصیحت یا خدا حافظی کے عنوان سے ایک بھائی نے اپنے بھائی کے لئے یہ چند جملے لکھے ہیں۔
آپ وصیت نامہ لکھتے ہو اور اپنے بعد جانشین تعین کرتے ہو، تو پھر اس حکومت کا نام جمہوری اسلامی کی بجائے سلطنتِ اسلامی کیوں نہیں رکھ دیتے؟ کیا پیغمبر اکرمؐ نے وصیت نامہ لکھ کر کسی کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا؟ سوائے اس کے کہ مولا علیؑ کو لوگوں کے سامنے پیش کردیا  تھا جوکہ معصوم اور منتخبِ الٰہی تھے۔ آپ کے آس پاس میں کونسا شخص ایسا ہے جو معصوم ہو؟ شیخ علی منتظری جوکہ ایک سادہ مدرس کے برابر فہم و درک نہیں رکھتا؟ شیخ علی مشکینی کہ جس کی کراہتِ نفس اس کی شکل سے ہی مکمل طور پر عیا ں ہے؟ جی ہاں کونسے معصوم کو دیکھا ہے آپ نے ؟
چودہ سو سالوں سے یہ عوام تھے جو تشخیص دیتے تھے کہ کونسا مرجع تقلید ،اعلم ہے اور کونسے علماء قابلِ احترام و اعتماد۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اخبارات ایک شیخ کو ایت اللہ العظمیٰ بناتے ہیں تو دوسرے کو افقہ الفقہاء! وہ جلاد شیخ گیلانی آیت اللہ بن جاتا ہے اور دستہ دستہ ثقت الاسلام اور حجت الاسلام حکومت کے کارخانوں سے باہر آتے ہیں۔ اور نام بھی رکھا ہوا ہے جمہوری اسلامی اور مسرور ہوکہ زمین پر حکمِ خدا نافذ کرچکے ہو!
خوش قسمت تھے وہ لوگ جو اُنہی ابتدائی دنوں میں ہی راہی دیار عدم ہوئے اور یہ دن دیکھنے کے لئے زندہ نہ رہے۔
 میں بھی جلد یا بدیر جانے والا ہوں، میری وحشت  صرف آپ کے لئے ہے۔
خداوندِ متعال سب کو راہِ راست کی طرف ہدایت دے۔
25 شوال 1403 ہجری قمری
قم  –  مرتضی پسندیدہ

کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں