ہفتہ، 11 مارچ، 2017

کامریڈ آیت اللہ امام سید علی خامنہ ای

یہ کتاب ایران کے اسلامی انقلاب کی منصوبہ بندی اور انقلاب کو عملی جامہ پہنانے میں سویت خفیہ ایجنسی کے کلیدی کردار کو آشکار کرتی ہے۔ اسی طرح یہ کتاب سید علی خامنہ ای کو ولی فقیہ مطلق کے مقام تک پہنچانے میں اس خوفناک ایجنسی کے عیاں و پنہاں مدد کو بھی آشکار کرتی ہے۔ اس کتاب کی دس فصلوں میں سے ہر ایک فصل میں انقلاب اسلامی کی تاریخ کے سربمہر اور ہولناک رازوں میں سے ایک راز سے ہمارا سامنا ہوگا کہ ان رازوں سے پردہ اٹھانے کے علاوہ انقلاب کی آگ کو چنگاری دکھانے اور شاہ کو سرنگوں کرنے کے لئے روسی خفیہ ایجنسی کے پیچیدہ نقشے کا بھی قریبی جائزہ لیا جائے گا۔ "کامریڈ آیت اللہ" بعض ایسی دستاویزات کی بنیاد پر کہ جن میں سے بعض پہلی بار شائع ہو رہی ہیں، انقلاب ایران میں مغربی دنیا کے ساتھ نبرد آزمائی میں KGB کے کردار کو واضح کرتی ہے۔


کامریڈ آیت اللہ
ایران کے اسلامی انقلاب اور سید علی خامنہ ای کے
کرسی اقتدار تک پہنچنے میں سویت خفیہ ایجنسی کا کردار

مؤلف: امیر عباس فخر آور
ناشر: شرکتِ کتاب

پیش لفظ

تقریباً ایک سو سال کے عرصے سے تقدیر، ہماری اس قدیم آریائی سرزمین کے ساتھ ایک تلخ کھیل کھیل رہی ہے۔ عجیب و غریب حادثات کی ہواؤں نے ہم ایرانی عوام کو ایک تاریخی بے یقینی کی کیفیت میں معلق رکھا ہوا ہے۔ ایک مشترکہ درد کہ جس کی اب ہمیں عادت ہوچکی ہے اور اپنی روزمرہ زندگی کی الجھنوں نے ہمیں اس درد کے نقطہ آغاز کے بارے میں سوچنے کی قوت سے بھی محروم کر رکھا ہے۔ اگر ہمارے بڑے بوڑھوں نے اس مشترکہ درد کی جڑ کو ڈھونڈ لیا ہوتا تو شاید اب تک ہم اس کے حل کے بارے میں سوچنے کے قابل ہوتے۔ جو کچھ آپ کے سامنے ہے اُن سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کے لئے دو دہائیوں کی بھاگ دوڑ کا خلاصہ ہے جن کے ساتھ میں نے اپنی آدھی زندگی گزاری ہے۔ آخرکار چار سال پہلے جب اس کتاب کو لکھنا شروع کیا تو کئی چیزوں کی توقع رکھتا تھا۔ توقع رکھتا تھا کہ یہ کتاب ایک ظالم ڈکٹیٹر کی بائیوگرافی یا سویت یونین کے ایک پرانے جاسوسی نیٹ ورک کے انکشاف میں تبدیل ہوگی، لیکن یہ کہ کتاب "کامریڈ آیت اللہ" ایران کے سیاسی-فوجداری تاریخ کی سیاہ ترین فائلوں سے پردہ اٹھانے والے سب سے بڑے تحقیقاتی مجموعے میں تبدیل ہوگی میرے وحشی ترین تصورات میں بھی اس خیال کے لئے جگہ نہیں تھی۔ آج پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اپنی سرزمین کے عوام کے درد کو پہچان چکا ہوں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کتاب کے آخر تک میرے ہمسفر رہنے والے قارئین میں گزشتہ سو سالوں کے دوران اس سرزمین پر گزرنے والے حادثات کے متعلق ایک نئی سوچ پیدا ہوگی۔ مشکل یہ تھی کہ ہمیں اس مشترکہ درد کو اپنی سرزمین کے اندر نہیں بلکہ کوسوں دور شمال میں واقع وسیع و عریض ہمسایہ ملک روس کے اندر تلاش کرنا چاہئے تھا۔ وہاں جہاں سن 1905ء میں ٹزاری آٹوکریسی کے خلاف  ایک انقلاب کی چنگاری کو ہوا دی گئی۔ بارہ سال بعد، بالشویکی انقلاب کے شعلوں نے پہلے اس وسیع و عریض سرزمین کے عوام کا دامن پکڑا اور اس کے بعد ایرانِ کُہن اور کرہ ارض کے باقی ممالک اس کی زد میں آگئے اور ان کی تاریخ، تہذیب اور پہچان کو مٹی میں ملا دیا۔

کتاب "کامریڈ آیت اللہ" دس فصلوں میں 1979ء کے اسلامی انقلاب کی منصوبہ بندی اور انقلاب کو عملی جامہ پہنانے میں سویت خفیہ ایجنسی کے کلیدی کردار اور بعد از آں سید علی خامنہ ای کو ولی فقیہ مطلق کے مقام تک پہنچانے میں اس خوفناک ایجنسی کے آشکار و پنہاں مدد سے متعلق دستاویزات کی چھان بین پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کی دس فصلوں میں سے ہر ایک فصل میں انقلاب اسلامی کی تاریخ کے سربمہر اور ہولناک رازوں میں سے ایک راز سے ہمارا سامنا ہوگا کہ ان رازوں سے پردہ اٹھانے کے علاوہ کوشش کی گئی ہے کہ اس سلسلے میں محققین کے لئے آزادانہ اور موضوعی تحقیق کے امکانات بھی فراہم ہوسکیں۔

پہلی فصل سرد جنگ کے تاریخچے کے متعلق ہے کہ جس کی جڑ سلطنت عثمانی کے زیادہ سے زیادہ حصوں پر قبضہ کرنے کے لئے برسرپیکار پہلی عالمی جنگ کے دو فاتح ملکوں یعنی روس اور برطانیہ کے مابین رقابت میں پوشیدہ تھی۔ عثمانی اس جنگ میں شکست کھانے والا سب سے بڑا فریق تھا اور ان کی فوج کے ہاتھ سے نکل جانے والی قیمتی ترین جنگی مال غنیمت میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے تاریخی ممالک شامل تھے۔ روس میں بالشویکی انقلاب نے جوکہ پہلی جنگ عظیم کے اختتام کے ساتھ ہی وقوع پذیر ہوا تھا، روسیوں سے شروع میں ہی اس فرصت کو چھین لیا تھا کہ اس قیمتی سرزمین کے بعض علاقوں پر اپنا قبضہ جما سکے اور اس طرح انگلستان اور فرانس ایسی دو طاقتیں تھیں جنہوں نے مشرق وسطیٰ کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔1917ء کے انقلاب اور یو ایس ایس آر کی تشکیل کے ساتھ روسیوں کی نگاہیں دوبارہ اپنی اس نوزائیدہ سلطنت کی سرحدوں سے باہر دیکھنے کے قابل ہوئیں تو عثمانی سلطنت میں ان کا نامحسوس اثرنفوذ، بین النحرین سے فلسطین اور مراکش سے مصر تک تیزی سے بڑھنے لگا۔ دوسری عالمی جنگ شروع ہونے کے ساتھ نازی جرمنی کا اتحادی ہونے کو بہانہ بناکر سویت یونین اور برطانیہ کی فوجیں شمال اور جنوب سے ایران میں داخل ہوئیں اور پورے ملک پر قبضہ کر لیا۔ اس طرح سویت خفیہ ایجنسی کے جاسوسوں اور ماسٹرمائنڈ افراد کی بڑی تعداد کو سویت سرخ فوجیوں کے روپ میں ایران میں مخفیانہ طور پر داخل ہونے اور ایران کے چپے چپے میں پھیل کر معاشرے کے تمام طبقات میں اپنے لئے جگہ بنانے کا بہترین موقع ملا۔ دوسری عالمی جنگ ختم ہونے کے فوراً بعد برطانوی فوجیں ایران سے نگل گئیں۔ سویت سرخ فوج بھی بین الاقوامی پریشر اور خصوصاً امریکی دباؤ کی وجہ سے کچھ عرصہ بعد ایران کی سرزمین کو چھوڑنے پر مجبور ہوگئی لیکن سویت خفیہ ایجنسی کے جاسوسوں کی فوج نے کبھی ایران کو خیرباد نہ کہا۔ یوں ایران میں حکومت کی تبدیلی اور سویت یونین کے لئے کام کرنے والے وفادار ایجنٹوں کو تلاش کرنے اور انہیں تربیت دینے کے لئے ان جاسوسوں اور ماسٹرمائینڈ افسران کی تین دہائیوں کی محنت کا ثمرہ 1979ء میں اسلامی انقلاب کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اس تلخ دورانئے میں ایران، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ پر جو کچھ گزرا، فصل ہذا میں اس کی تصویر کشی کی گئی ہے۔

دوسری فصل میں بعض خفیہ دستاویزات کے آئینے میں جوکہ پہلی بار اس کتاب میں شائع ہورہی ہیں، روس کی خدمت گزاری پر مامور سویت خفیہ ایجنسی کے توسط سے انقلاب اور اس کے بعد کے دنوں کے لئے ماسکو سے تربیت حاصل کرکے آنے والی ایران کی بعض بااثر شخصیتوں کی حالات زندگی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اسی طرح ہم دیکھیں گے کہ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران جمہوری اسلامی کی تنگ سیاسی ماحول کے اندر تاثیر گزار تینوں سیاسی قوتیں بھی سویت خفیہ ایجنسی کی خدمت پر مامور رہی ہیں: سید علی خامنہ ای کہ جن کے ہاتھ میں قدامت پسند حکومتی جماعت کی رہبری ہے، سید محمد موسوی خوئینی ہا جوکہ اصلاح پسند گروہ کے معنوی باپ کی حیثیت رکھتا ہے اور اسی طرح گزشتہ چند سالوں کے دوران وجود میں آنے والا نیا قدامت پسند بازو کہ جس میں محمود احمدی نژاد کے قریبی مشاورین کامران دانشجو، محمود مُلاباشی اور ارسلان قربانی جیسے افراد شامل ہیں سارے لوگ پیٹریس لومومبا یونیورسٹی میں زیر تربیت رہے ہیں جو کہ 1960ء سے آج تک روسیوں کے لئے جاسوس تربیت دینے  والا مرکز رہا ہے۔

تیسری فصل ماسکو میں واقع پیٹریس لومومبا یونیورسٹی المعروف پیپلز فرینڈشپ یونیورسٹی کے بارے میں تفصیلات پر مشتمل ہے جس میں مشرق وسطیٰ، افریقا، ایشیا اور جنوبی امریکا میں سویت یونین کے وفادار لیڈران تیار کرنے کے لئے اس یونیورسٹی کے اقدامات کے تاریخچے کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسی یونیورسٹی ہے جس کے بارے میں خود روسی خفیہ ایجنسی KGB کے ہائی کمان افسران نے اعتراف کیا ہے کہ سویت خفیہ ایجنسی نے اس کی بنیاد رکھی ہے اور مینجمنٹ کے علاوہ یونیورسٹی کا پورا سٹاف، اساتید اور سارے غیرملکی شاگرد بھی سویت خفیہ ایجنسی کی خدمت پر مامور رہے ہیں۔ فصل کے آخر میں روس کے 1917ء کے انقلاب کے بعد کی سوسالہ تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالی گئی ہے تاکہ ہم پر یہ واضح ہوسکے کہ سویت سرحدوں سے باہر تاک جھانک کی سیاست اس ملک کے ہر حکمران کی حکمرانی کا حصہ رہی ہے۔ اسی طرح مشرقی سوشلسٹ شاہنشاہی نظام کی بحالی کے لئے ولادمیر پوٹین کے خوابوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔

چوتھی فصل ایران میں 1979ء کے انقلاب کی ایندھن کو آگ دکھانے کے لئے سویت خفیہ ایجنسی کے آپریشنوں کے آخری مراحل کے بارے میں تفصیلات بیان کئے گئے ہیں خصوصاً 19 اگست 1978ء کو آبادان شہر کے ریکس سینما میں آتش سوزی کا جانکاہ حادثہ اور 9 ستمبر کو تہران میں قتل عام کا ہولناک  واقعہ کہ جس میں اسلامی انقلاب کی تاریخ کے ان واقعات میں پہلی بار سید علی خامنہ ای کے نقش پا دکھائی دیتے ہیں۔ یہ دو حادثات شاہی حکومت کو کمزور کرنے کے لئے بنائے گئے اُن وسیع شورشی منصوبوں کا ایک حصہ تھا جن کے لئے سویت یونین کے کیمپوں میں روسیوں کے وفادار نیم فوجی دستوں نے سالہا تربیت اور ٹریننگ لی تھی۔ سویت خفیہ ایجنسی کی دستاویزات اور افسران کے اعترافات اس واقعیت سے پردہ اٹھاتے ہیں کہ ایک دہائی کے عرصے سے ان فسادات کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کی جاتی رہی تھی۔ اسی طرح انقلاب اسلامی کی تاریخ کے کچھ ایسی دستاویزات کا آپ فصل ہذا میں مشاہدہ کریں گے جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ان جرائم میں ملوث افراد کے نشانات کو مٹانے کے لئے مسعود کشمیری کی سربراہی میں سید علی خامنہ ای کے وفادار افراد پر مشتمل ایک وارداتی ٹیم تشکیل دی گئی تھی۔

پانچویں فصل میں سپاہ پاسدارانِ انقلاب کی تشکیل کے تاریخچے کا ایک بالکل ہی نئے زاویئے سے جائزہ لیا گیا ہے۔ سپاہ پاسداران کی بنیاد شروع میں "جمہوری اسلامی پارٹی" کے عسکری بازو کا کردار ادا کرنے کے مقصد کو مدنظر رکھ کر رکھی گئی تھی تاکہ انقلاب کے بعد ابتدائی مہینوں میں "تنظیم مجاہدین خلق اور "عوامی فدائی گوریلا تنظیم" جیسی بڑی اور پُرتعداد پارٹیوں کے ساتھ رقابت کا امکان فراہم ہوسکے۔ سپاہ پاسداران نے جوکہ سویت سرخ آرمی کو آئیڈیل کے طور پر لے کر بنایا گیا تھا اور شہر کے گوشہ و کنار کے گلی محلوں میں رہنے والے غنڈوں، اوباشوں اور اسی طرح مذہبی اعتقاد رکھنے والے بعض نادان جوانوں کو افرادی قوت کے طور پر بھرتی کرتا تھا، بہت جلد سویت خفیہ ایجنسی کی توجہ کچھ اس طرح اپنی طرف کھینچ لی کہ مہدی بازرگان یا بنی صدر کی حکومت کو آگاہ کئے بنا اسلحہ بارود اور دیگر ہلکے پھلکے اور بھاری فوجی سازوسامان کے کئی کھیپ سپاہ پاسداران کو مسلح کرنے کے لئے ماسکو کے راستے ایران روانہ کیا گیا۔ یوں سپاہ پاسداران نے جوکہ اب  خامنہ ای کی خصوصی فوج بن چکی تھی، انقلاب سے پہلے سویت خفیہ ایجنسی کے کیمپوں سے ٹریننگ لے کر آئے ہوئے بہت سے انقلابی جوانوں کو جمع ہونے کی جگہ فراہم کی۔

چھٹی فصل نومبر 1979ء میں امریکی سفارتخانے پر حملے کے واقعے میں سپاہ پاسداران انقلاب کے کلیدی کردار کے بارے میں ہے۔ تہران میں امریکی سفارتخانے کو زیر کرنے کے تین دہائیوں سے زیادہ عرصے بعد ہاتھ آنے والی معتبر دستاویزات اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ "راہِ امام کے پیروکار طلباء" کہلانے والے اکثر حملہ آور سرے سے یونیورسٹی کے طالبعلم ہی نہ تھے بلکہ "انقلابِ اسلامی کمیٹیوں" کے ممبران اور سپاہ پاسدارن کے افراد تھے جنہوں نے پیٹریس لومومبا یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے والے ایک شخص، یعنی سید محمد موسوی خوئینی ہا کی قیادت میں اس آپریشن کو اپنے انجام تک پہنچایا تھا۔ تہران کے امریکی سفارتخانہ پر چڑھائی اور سفارتی عملے کو 444 دنوں تک یرغمال بنائے رکھنے والے کھیل میں سویت خفیہ ایجنسی نے بلاچون و چرا میدان مار لیا تھا۔ یوں KGB نے بغیر اس کے کہ اس ماجرا میں کسی روسی اہلکار کا ہاتھ نظر آئے، امریکی سفارتخانے کی اہم دستاویزات تک دسترسی حاصل کرلی، امریکہ کے شکست ناپذیر ہونے کے خواب کو چکناچور کر دیا اور اس مغربی سپر پاور کی خوب تذلیل کی۔ اہم تر یہ کہ ایران امریکہ کے ہاتھ سے نکل گیا اور اس کے بعد سویت یونین نے کسی ہم پلہ رقیب کی غیرموجودگی سے فائدہ اٹھا کر انقلاب ایران کو جس سمت میں چاہا موڑ دیا۔

ساتویں فصل سید علی خامنہ ای کے ایک اور بڑے راز سے پردہ اٹھاتا ہے۔ سویت خفیہ ایجنسی کو خبر ملتی ہے کہ ایران فضائیہ کے کچھ افسران جمہوری اسلامی کی نوزائیدہ حکومت کا تختہ الٹنے اور برسر اقتدار انقلابی روحانی پیشواؤں کو حکومت سے بے دخل کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔ یہ خبر 9 جولائی 1980ء کو رات کے تین بجے سید علی خامنہ ای کو ملتی ہے اور وہ وقت ضائع کئے بغیر اسی وقت اپنے دو انتہائی قریبی اور قابل اعتماد ساتھیوں یعنی فوج کے ادارہ دوم میں قائم فضائیہ کے دفتر کے انچارج مسعود کشمیری اور سپاہ پاسداران انقلاب کے انٹلیجنس ونگ کے انچارج محسن رضائی سے رابطہ کرتا ہے اور انہیں فوری طور پر اپنے گھر پہنچنے کی تاکید کرتا ہے۔ یوں رات کے اس آخری پہر کی میٹنگ میں "کلین اپ کمیٹی برائے بغاوت نوژہ" کے نام سے ایک کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے جس میں مسعود کشمیری کو ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کا عہدہ سونپا جاتا ہے اور طے پاتا ہے کہ یہ کمیٹی خامنہ ای کی سربراہی میں کام کرے گی۔ اس کلین اپ کمیٹی نے دس ماہ کے عرصے میں گرفتاریوں، برطرفیوں اور پکڑ دھکڑ کے ذریعے حکومتی اداروں اور فوج کی وسیع پیمانے پر چھانٹی کی اور اس طرح اُن تمام قوتوں کو بے دخل کر دیا جن کے بارے میں شک تھا کہ انقلاب اسلامی اور حکمران مذہبی جماعت کے نصب العین سے وفادار نہیں۔ اس کے بعد 1981ء کے شروع میں اس کلین اپ کمیٹی کے ممبران جوکہ سید علی خامنہ ای کے خاص کارندے تھے، حساس حکومتی اداروں میں داخل ہوئے تاکہ انقلاب کو پائیدار بنانے کے لئے مزید اقدامات کیا جا سکے۔

آٹھویں فصل 1981ء کے موسم گرما میں ہونے والی دہشت گردی کے حملوں اور ان حملوں میں سید علی خامنہ ای اور "کلین اپ کمیٹی" میں اس کے وفادار ساتھیوں کے براہ راست کردار پر از سرنو تحقیق پر مشتمل ہے۔1981ء کی گرمیوں کے قاتلانہ حملوں کا آغاز مجلس شورائے اسلامی میں بنی صدر سے وضاحت طلبی کے ساتھ ہی بنی صدر کے ایک نمایاں حامی ڈاکٹر مصطفیٰ چمران کے قتل سے ہوا۔ ایرانی عوام کے ووٹ سے منتخب ہوکر برسراقتدار آنے والے ایران کے سب سے پہلے صدر کے خلاف ایک سازش کے تحت "ناکافی سیاسی شعور" کا بل اسمبلی میں ہاشمی رفسنجانی کی صدارت میں اور پیٹریس لومومبا یونیورسٹی کے دو فارغ التحصیلان یعنی سید علی خامنہ ای اور سید محمد موسوی خوئینی ہا کے تعاون سے پیش کیا گیا۔ اس کے ایک ہفتہ بعد 26 جون کو ابوذر مسجد میں خامنہ ای پر بم حملے کا ایک ڈرامہ رچایا گیا جس میں بتایا گیا کہ خامنہ ای بال بال بچ گئے ہیں۔ یہی قاتلانہ حملہ سبب بنا کہ آنے والے دنوں میں جمہوری اسلامی حکومت کے متعدد اہم ترین عہدیداروں کو نشانہ بنانے والے سارے خوفناک بم دھماکوں میں خامنہ کی طرف الزام کی انگلی نہ اٹھنے پائے۔ سید علی خامنہ ای کے سارے رقیب یکے بعد دیگرے میدان چھوڑتے جا رہے تھے اور اس کے لئے اقتدار تک پہنچنے کا راستہ ہر روز ہموار تر ہوتا جا رہا تھا۔ جون کی 27 تاریخ کو آیت اللہ بہشتی کو جمہوری اسلامی پارٹی کے 70 سے زیادہ اعلیٰ عہدیداروں کے ہمراہ ایک دھماکے میں اڑا دیا گیا اور 28 جون کو صدر مملکت محمد علی رجائی اور وزیر اعظم محمد جواد باہنر اسی قسم کے ایک دھماکے میں مار دیئے گئے۔ آیت اللہ قدوسی، حسن آیت اور بہت سارے دیگر افراد کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جو خامنہ ای کے لئے اقتدار تک پہنچنے کے راستے میں ایک طرح سے رکاوٹ بنتے تھے۔رقیبوں سے نمٹنے کا یہ خونی انداز انقلاب روس کے بعد کے ابتدائی سالوں کی یاد تازہ کرتا ہے جب اسٹالین کی کرسی کو مضبوط بنانے کے لئے وسیع پیمانے پر مخالفین اور رقیبوں کا صفایا کیا گیا تھا۔  

ان قاتلانہ حملوں کے کیس کی عدالت میں پیروی کرنے کی کوشش کرنے والے تمام بدنصیبوں کے افسوسناک انجام کی داستان بھی اس فصل کا حصہ ہے۔ اس کے علاوہ ایک قابل ذکر نکتہ جس کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے یہ ہے کہ ان دہشت گردی حملوں کے فوراً بعد برسر اقتدار آنے اور آج تک اسی مسند پر براجمان نظر آنے والے سید علی خامنہ ای نے ان کیسوں کی پیروی بارے کبھی بھی دلچسپی نہیں دکھائی ہے۔ سن اکیاسی موسم گرما کے خونی حملوں کی فائلیں جوکہ تین دہائیوں سے عدالت کے ریکارڈ روم میں دھول مٹی کھا رہی ہیں، پہلی بار اس کتاب میں ہر زاویئے سے زیر تحقیق قرار پا رہی ہیں اور ان حملوں میں خامنہ ای اور روسی خفیہ ایجنسی کے ملوث ہونے کی واضح نشاندہی کر رہی ہیں۔

نویں فصل سن اکیاسی موسم گرما کے حادثات کے بعد سے لے کر خمینی کی وفات اور خامنہ ای کے ولی مطلقہ فقیہ بننے تک کے احوال کا احاطہ کرتی ہے۔ وزارت انٹلیجنس کی بنیاد، کرملین پیلس کی طرف سے سبز بتی دکھانے کے ساتھ تودہ پارٹی کی تحلیل، خامنہ ای کے قریبی دوستوں کی ٹیم میں اندرونی اختلافات کا آغاز اور خصوصاً اُس وقت کے وزیر اعظم میر حسین موسوی کے ساتھ خامنہ ای کے اختلافات۔ ایران کونٹرا سکینڈل اور خامنہ ای کا اس بات پر سیخ پا ہونا کہ حکومت کے سب سے بڑے انتظامی عہدے پر ہوتے ہوئے بھی وہ اس بات سے بے خبر رہا تھا اور جواباً سویت خفیہ ایجنسی کی مدد سے ایران کونٹرا مذاکراتی ٹیم اور امریکی صدر کے فرستادوں سے خامنہ ای کا تلخ انتقام، آیت اللہ منتظری کو قائم مقام رہبری کے عہدے سے برطرف کرنے کا نقشہ، سید علی خامنہ ای کے صدارتی ٹرم کے اختتام کے آخری ہفتوں میں خمینی کی مشکوک موت اور آئینِ جمہوری اسلامی میں ردوبدل کرنے کے لئے سازباز وغیرہ ایسے موضوعات ہیں جن کی اس فصل میں چھان بین کی گئی ہے۔

آخری فصل میں انقلاب کے دوران اور انقلاب کے بعد مشرقی اور مغربی دونوں عالمی طاقتوں کے اقدامات پر ایک طائرانہ اور تقابلی نظر ڈالی گئی ہے۔ سویت یونین نے اگست 1941ء میں سرخ فوج کے ایران میں داخلے کے ساتھ ہی تمام اجتماعی طبقات میں اپنے اثر و نفوذ کو تقویت بخشنا شروع کر دیا تھا۔ ایک طرف وہ ایران کے اندر تودہ پارٹی جیسے مارکسسٹ پارٹیوں کی کھلی حمایت اور اسی طرح "قومی محاذ" اور "تحریک آزادی" جیسی تحریکوں کی پوشیدہ حمایت میں مصروف تھا تو دوسری طرف حوزہ ہائے علمیہ سے علوم اسلامی کے جوان سال طالبعلموں کے درمیان سے سویت خفیہ ایجنسی کے لئے وفادار حلیفوں کی تلاش میں مشغول تھا۔ اس کے علاوہ سویت خفیہ ایجنسی ایک طویل المیعاد پروگرام کے تحت محمد رضا شاہ کے دربار تک رسائی حاصل کر چکی تھی اور اس طریقے سے وہ شاہی سلطنت کو کمزور کرنے کے اپنے عزائم کو عملی جامہ پہنا سکتی تھی۔ سب سے اہم یہ کہ "ڈِس انفارمیشن کمپین" یا جھوٹ اور افوازہ سازی مہم کی مدد سے کہ KGB کے افسران جس کے بے رقیب ماہر تھے، وہ ملک کے بدلتے حالات پر گہرے اثرات ڈالنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ بحر اوقیانوس کے دوسری طرف مغربی سپرپاور یعنی ریاستہائے متحدہ امریکہ اس دوران متعدد اندرونی مسائل کا شکار تھا۔  جمی کارٹر اپنے مثالیت پسند تفکرات کے ساتھ حال ہی میں امریکہ کی صدارتی کرسی پر براجمان ہوا تھا اور اس کے تمام سیاسی، اجتماعی، معاشی اور عسکری اقدامات کسی انقلاب سے کم نہ تھے۔ ویتام کی جنگ اور واٹرگیٹ سکینڈل کی بدنامی جوکہ صدر رچرڈ نکسن کے استعفے کا سبب بنا، دونوں ہی کی وجہ سے امریکہ کی خود اعتمادی کا پارہ بے حد نیچے گرا ہوا تھا اور اب کارٹر کے ہاتھوں ہونے والی برطرفیوں اور بھرتیوں نے امریکہ کی اس تصویر پر بھی سوالیہ نشان ڈال دیا تھا جو دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کے سامنے ابھری تھی۔ کارٹر کے اقدامات کی وجہ سے امریکی خفیہ اور سکیورٹی ایجنسیاں ایران کے بدلتے حالات کو سمجھنے میں کھلی غلطی کا مرتکب ہوئی تھیں اور امریکہ عملی طور پر پیش آنے والے حالات کا صحیح اندازہ لگانے میں ناکام رہا تھا۔ اس بیچ سویت خفیہ ایجنسی وسیع پیمانے پر یہ جھوٹا پروپیگنڈا پھیلانے میں کامیاب ہوئی کہ شاہ کو گرانے اور خمینی اور انقلابی روحانیوں کو برسراقتدار لانے میں امریکی صدر اور مغربی ملکوں کا ہاتھ ہے۔ اس طرح سویت یونین کا ہاتھ کہ جس میں انقلاب ایران اور بعد کے حادثات کی اصل باگ ڈور تھی، کئی دہائیوں تک دنیا کی نظروں سے پوشیدہ رہا تھا۔

اس کتاب کی تالیف کے لئے ماخذ کے انتخاب میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ ایسے ماخذ کا حوالہ دیا جائے جس سے ذاتی و گروہی دوستی اور دشمنی سے بالاتر رہتے ہوئے تاریخی واقعیتوں کو طرفین میں چھڑی ہوئی نفسیاتی جنگ کی دھول مٹی کے نیچے سے نکالا جا سکے۔ اس زہرآلود ماحول نے جوکہ سرد جنگ کے دنوں کی خاصیت رہی ہے اس دوران سے مربوط ہر سیاسی، اجتماعی اور تاریخی موضوع کے بارے میں درست اور قابل اطمینان تحقیق و جستجو کو بے حد مشکل بنا رکھا تھا۔ اسی وجہ سے کتاب "کامریڈ آیت اللہ" میں تاریخی واقعیتوں کو ثابت اور آشکار کرنے کے لئے ایک دشوار مگر قابل اطمینان اسلوب سے کام لیا گیا ہے۔ نمونے کے طور پر انقلاب کی تاریخی حالات اور انقلاب کے بعد کے سالوں میں ملک پر حاکم روحانیوں اور ان کے حامیوں کے اقدامات میں سویت خفیہ ایجنسی کے کردار کو ثابت کرنے کے لئے حکومت مخالف گروہوں اور اپوزیشن کے ماخذ کی طرف رجوع کرنے کی بجائے حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کے توسط سے لکھی گئی کتابوں اور یادداشتوں اور اسی طرح سرکاری تاریخ نگاری کی بنیاد پر معتبر دستاویزات اور سویت خفیہ ایجنسی کے افسران کی طرف سے شائع شدہ اس خاص تاریخی دور سے مربوط یادداشتوں کی روشنی میں ان کا تقابلی جائزہ لیا گیا ہے۔ جرات کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ وہ تمام ماخذ جن کا یہاں حوالہ دیا گیا ہے، جمہوری اسلامی اور روسی حکومت کی طرف سے شائع ہونے والی سرکاری دستاویزات اور اسی نوعیت کے دیگر ماخذ ہیں تاکہ ان جابر حکومتوں کو حیل و حجت کا موقع نہ مل سکے۔ اسی طرح سابق سویت خفیہ ایجنسی، وزارت انٹلیجنس جمہوری اسلامی اور سی آئی اے کی کچھ خفیہ اور کلاسفائیڈ دستاویزات جو کہ تین دہائیوں کے بعد شائع ہوئی ہیں، اس کتاب کی تدوین اور اسلامی انقلاب کے بعد ایران کی تاریخ معاصر کے حافظے سے گردوغبار کو ہٹانے میں بے حد مددگار ثابت ہوئی ہیں۔ ان تمام موارد میں سے اہم تر ماسکو میں واقع پیٹریس لومومبا یونیورسٹی المعروف پیپلز فرینڈشپ یونیورسٹی سے ہاتھ لگنے والی کچھ سکریٹ دستاویزات ہیں جو خصوصی طور پر اور پہلی مرتبہ کتاب "کامریڈ آیت اللہ" میں شائع ہورہی ہیں۔

اس کتاب کے اصلی مخاطبین دو گروہ ہیں: پہلا گروہ قانون سازوں، سیاستدانوں اور اجتماعی و سیاسی علوم کے وہ ماہرین ہیں جو آزاد اور جمہوری دنیا کے اصولوں کا پاس رکھتے ہوئے اور ڈپلومیٹک تعلقات کی بنیاد پر، سید علی خامنہ ای کو ایک مقدس مذہبی رہنما کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اُس قوم کے احترام میں کہ جس کی رہبری خامنہ ای کے ہاتھ میں ہے، اپنے مکاتبات، تقریروں اور انٹرویوز میں اسے احترام سے یاد کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو یہ جان لینا چاہئے کہ اس مقدس نقاب کے پیچھے جو خامنہ ای نے اپنے چہرے پر لگا رکھا ہے، سویت خفیہ ایجنسی کا ایک ایجنٹ پوشیدہ ہے جو طاقت و اقتدار کے حصول کے لئے قاتلانہ حملوں اور دہشت گردی کارروائیوں کے ذریعے بے شمار لوگوں کی جانوں سے کھیل چکا ہے۔ اس کتاب کے مخاطبین کا دوسرا گروہ خامنہ ای کے وہ معتقدین ہیں جو جمہوری اسلامی کے توسط سے ہونے والے وسیع تبلیغاتی پروپیگنڈے کی وجہ سے یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ تاریخ کے کسی موڑ پر، سید علی خامنہ ای ایرانی قوم کی ولایت و رہبری کا پرچم شیعوں کے بارہویں امام کے ہاتھ سے لے چکا ہے اور اس پرچم پر مہر خداوندی ثبت ہے۔ انہیں بھی یہ جان لینا چاہئے کہ امام زمانہ کے ہاتھ سے مہر خداوندی کے ساتھ تو کوئی پرچم خامنہ ای کو نہیں دیا گیا ہے البتہ تاریخ معاصر کے سب سے خوفناک جاسوسی ادارہ سویت خفیہ ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل یوری آندرپوف کے توسط سے ایک فائل خامنہ ای کے بغل میں دبا دی گئی ہے تاکہ امریکہ کے اتحادی ملک ایران کو سویت پنجالی میں جوت دیا جائے۔

کتاب "کامریڈ آیت اللہ" ایک مشترکہ درد کی اصلی وجہ کی تلاش میں ایک پرانے زخم کو کھولتی ہے جو ایک ایسے انفیکشن کی جڑ ہے جس نے ایرانی معاشرے کے پورے وجود کو گھیر رکھا ہے۔ اگرچہ یہ کام تکلیف دہ ہوگا مگر درد کے علاج کے لئے اس بدبودار زخم کو کھولنا اور اس کی واقعیت کو دیکھنا ضروری ہوچکا ہے، اس زخم کو دھونا اور اس تاریخی انفیکشن سے آہستہ آہستہ رہائی پانا ضروری ہے۔ ایسے زخم کو اپنے میلے کچیلے لباس میں چھپانے کا عمل ایک عظیم اور تاریخ ساز قوم کی تباہی اور موت کے وقت کو نزدیک تر لے کر آئے گا۔

کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں