پیر، 16 جنوری، 2017

آیت اللہ سید رضا زنجانی اور تکفیرِ خمینی؟!

آقا سید رضا زنجانی اور آقا سید روح اللہ خمینی دونوں حوزہ علمیہ قم کے بانی جناب آقائے شیخ عبدالکریم حائری یزدی کے شاگرد تھے۔ دونوں فقیہوں نے شاہنشاہی آمریت اور اغیار کی بالادستی کا مقابلہ کیا ہے، لیکن دونوں کا اندازِ مقابلہ ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھا۔

آقا سید رضا زنجانی نے کبھی وجوہات شرعیہ سے فائدہ نہیں اٹھایا، علاوہ ازیں وہ ولایت فقیہ، دینی حکومت اور سرکاری عہدوں میں مذہبی پیشواؤں کی مداخلت کے سخت مخالف تھے۔

وہ اپنے استاد آقائے شیخ عبدالکریم کے مقرب ترین شاگرد، ڈاکٹر محمد مصدق کے نزدیک ترین روحانی پیشوا، تحریک قومی دفاع کے بانی، قومی محاذ کے نمایاں ترین حامی مذہبی پیشوا اور آقائے خمینی پر تنقید کرنے والے علماء میں سرگرم ترین عالم دین میں ان کا شمار ہوتا تھا۔

سید رضا زنجانی نے ڈاکٹر مصدق کے بارے میں آقائے خمینی کے اس بیان پر کہ "وہ مسلمان نہیں" ان الفاظ میں اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا:

"وہ مرحوم بلاشک ایک معتقد مسلمان تھے اور اسلام کو اپنے سیاسی و ذاتی مقاصد کے حصول اور رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لئے استمعال کرنے والے کسی آلے سے بالاتر سمجھتے تھے۔ ان کی کابینہ میں ان سے پہلے اور بعد میں آنے والا کونسا وزیر اعظم اور کونسے وزراء ان سے زیادہ پکے مسلمان تھے؟ وہ ایک سیاسی شخصیت تھے نہ کہ مذہب کی تبلیغ کرنے والا ایک مولوی۔"

زنجانی کے مطمع نظر جو حکومت تھی وہ عوامی یا قانونی یا جمہوری حکومت تھی نہ کہ مذہبی حکومت۔ زنجانی عین اپنے استاد شیخ عبدالکیم حائری کی طرح فقیہ کی سیاسی ولایت کے مکمل مخالف تھے اور فقیہ کے لئے جن اختیارات کو صحیح سمجھتے تھے وہ فقط امورِ حسبیہ تھے ( یعنی سرپرست سے فاقد اہم امور جیسے بے آسرا بچوں کی سرپرستی اور اوقافِ عامہ وغیرہ ) وہ بھی قدرِ متیقن (صرف ایسی جگہ جہاں یقین حاصل ہو کہ سرپرست کے بغیر حق ضائع ہوجائےگا۔)

آیت اللہ سید رضا زنجانی آقائے خمینی کے طرزِ عمل اور طرزِ فکر دونوں کے شدید مخالفین میں سے تھے۔ ایران کے آئین میں سرکاری مذہب داخل کرنے کی قرارداد پر انہیں نے نہایت بے باکی سے تنقید کی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ آئین میں ایسی کسی ترمیم سے شیعیت کو کسی قسم کا فائدہ نہیں پہنچے گا۔

ان کی یہ بے باکی اور نڈرپن حکومت کو پسند نہیں آتی اور 1985 میں سپریم جوڈیشری کونسل کی جانب سے ایک کتاب شائع کی جاتی ہے جس میں کسی قسم کے تحریری و تقریری ثبوت کے بغیر سید رضا زنجانی پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ آقائے خمینی کی تکفیر کرنا چاہتے تھے! افسوس کہ عدالتی حکام نے ہر قسم کی تنقید کو تکفیر فرض کر رکھا ہے۔

سید رضا زنجانی نے 8 جون 1981 کے اپنے ایک اعلانیہ میں، جوکہ آج تک کسی بھی ایرانی جریدے یا اخبار میں شائع نہ ہوسکا، نام نہاد جمہوری اسلامی کو آئینہ دکھاتے ہوئے لکھا ہے:

"موجودہ حکومت نے، اپنے سیاسی اندھے پن، اسلامی اصولوں اور اپنے وضع کردہ ملکی آئین سے غفلت، اندرونی اختلافات اور انسانی اقدار و شرعی آداب کی عدم رعایت کی وجہ سے، ملک و قوم کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کردیا ہے۔"

"ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو کسی بھی وسیلے سے اور کسی بھی قیمت پر صرف اپنی بقا اور کرسی بچانے کی فکر ہے۔ عمل کے میدان میں اصول و اقدار کی رعایت کئے بغیر صرف اسلام کے مبارک لفظ کو کھوکھلا کرکے عام آدمی کو ڈرانے، دھمکانے، قتل و غارت گری اور غیر شرعی و غیر عرفی لوٹ مار کرنے، توہین  و تذلیل کرنے اور ضدِ انقلاب کا الزام لگانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔"

زنجانی نے شروع میں ہی دو خطرات کو بھانپ لیا تھا: ایک عراق کے ساتھ جنگ میں شکست اور دوسرا پریشر گروپوں کا وجود میں آنا۔ وہ ایران عراق جنگ کے عوامل و اسباب میں "انقلاب کو ایکسپورٹ" کرنے والے نعرے کی ایک سیاسی غلطی کے طور پر نشاندہی کرتے ہیں۔ (آیت اللہ خمینی نے کہا تھا کہ ہم اس انقلاب کو ہمسایہ ملکوں میں بھی ایکسپورٹ کریں گے۔) دوسرا غیر اعلانیہ طور پر حکومتی اداروں کی طرف سے حمایت یافتہ "حزب اللہ" جیسے گروپوں کا عوام کے جان و مال اور حیثیت و آزادی" پر ناجائز گرفت کا خطرہ۔

آقائے خمینی سے دس سال پہلے امریکا کے ساتھ ٹکر لینے والے سید رضا زنجانی کے تشیع جنازے میں بعض ناپاک زبانوں کا "مردہ باد امریکا" کا نعرہ لگانا کتنی افسوس ناک بات ہے۔ اس عالم ربانی کے جنازے کو "مردہ باد منافق" کے نعروں کے ساتھ راہی قبرستان کرنے والے حزب اللہی دراصل شیطان کے آلہ کار تھے مگر وہ خود جانتے نہیں تھے۔ اس پست قسم کے لوگوں کو پالنے والی دنیا پر تُف!

آقائے خمینی خود سے سالہا پہلے استعمار کے ساتھ مبارزہ شروع کرنے والے مردِ مجاہد کی وفات پر اپنے کینے کا اظہار کئے بنا نہ رہ سکے۔ انہوں نے نہ تو مرحوم کے خاندان کو تسلیت کہا اور نہ ہی فاتحہ خوانی کی مجلس برپا کی۔ یہاں یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ آقائے خمینی کے مقابلے میں سید رضا زنجانی کا فکر و عمل علوی سیرت سے نزدیک تر ہے۔

باتشکر از ویب سایت فارسی دکتر محسن کدیور

کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں