بدھ، 11 جنوری، 2017

جمہوری اسلامی ایران کا سیکنڈ مین ہاشمی رفسنجانی چل بسا

ہاشمی رفسنجانی کی شخصیت جمہوری اسلامی کی دوسرے نمبر کی اہم ترین شخصیت تھی۔ آیت اللہ خمینی کی زندگی میں اٰن کے بعد رفسنجانی کا نمبر آتا  تھا اور ان کی وفات اور آقائے خامنہ ای کے رہبر بننے کے بعد بھی رفسنجانی  دوسرے نمبر پر ہی رہے۔

جمہوی اسلامی بننے کے بعد ہاشمی رفسنجانی کی سرگرمیوں کو دو ادوار یعنی سن 1978 سے  2006 تک اور 2006 سے 2017 تک میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا دور جمہوری اسلامی کے رہبر کے ساتھ رفسنجانی کی موافقت اور ہمفکری پر مشتمل ہے جبکہ دوسرا دور آقائے خامنہ ای سے  دوری اور اُن لوگوں کی ہمراہی اور ہمفکری کا دور ہے جو نظام کا حصہ تو تھے مگر آقائے خامنہ ای سے بعض امور میں اختلاف رکھتے تھے اور ان پر تنقید کرتے تھے۔

جمہوری اسلامی کی ابتدائی 27 سالوں کے دوران ہاشمی رفسنجانی اس نظام کے ہر اچھے برے کام میں براہ راست شریک اور تمام مثبت اور منفی امور کے ذمہ دار رہے ہیں۔ ہاشمی رفسنجانی نے درج ذیل امور میں خصوصی کردار ادا کیا ہے: 8 سالہ جنگ کو خاتمہ دینا اور اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے قرارداد نمبر 598 کو قبول کرنا، یورپ اور امریکا کے ساتھ تعمیری اور اصلاحی تعلقات کا آغاز کرنا، جنگ کی تباہ کاریوں کے بعد اپنے ملک کی تعمیرِ نو کرنا، اور  صدارتی انتخابات میں عوام کے ووٹ میں امانتداری اور اُن کی  رائے کا احترام کرتے ہوئے اس وقت کے اصلاح طلب صدر سید محمد خاتمی کی حمایت کرنا۔

ہاشمی رفسنجانی کے مثبت افکار میں سے درج ذیل تین نکات قابل ذکر ہیں: پہلا نکتہ یہ کہ آئین پرنظرثانی  اور ترمیم کرنے والی کمیٹی میں "رہبر کی رہبری کے دورانئے کو دس سال تک محدود کرنے " کی حمایت کرنے والوں میں وہ سب سے آگے  تھے۔ دوسرا یہ کہ وہ اس بات کے شدید حامی تھے کہ" رہبر ایکسپرٹ کونسل کی زیرنگرانی کام کرے"۔ تیسرا نکتہ یہ کہ وہ مرجعیت کو شورائی کرنے کے حق میں تھے اور فتویٰ دینے کے عمل کو تخصصی کرتے ہوئے صرف متعلقہ ماہر مجتہدتک محدود دیکھنا چاہتے تھے۔

ہاشمی رفسنجانی پر درج ذیل امور کی وجہ سے تنقید کیا جا سکتا ہے: آقائے خامنہ ای کو رہبری کی کرسی تک پہنچانا۔ ہاشمی رفسجانی شاید یہ سوچتے تھے کہ اپنے دیرینہ دوست آقائے خامنہ ای  کو رہبر بنانے سے ان کو یہ فائدہ ہوگا کہ وہ صرف اعزازی اور نام کے رہبر ہونگے جبکہ ملک کی اصل باگ ڈور انہی کے ہاتھ میں ہوگی۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے یا تو آقائے خامنہ ای کو پہچاننے میں غلطی کی تھی یا انسانی شخصیت پر رہبر ی کی کرسی جیسی مطلق العنان  طاقت  کے تباہ کن اثرات سے ناواقف تھے یا  پھر دونوں باتوں پر پر ان کی توجہ نہیں تھی۔ ان کا وزارت خفیہ امور، سکیورٹی اور دفاعی اداروں (سپاہ پاسداران انقلاب)  کو ملک کے اقتصادی معاملات میں داخل کرنا ،جو کہ بدونظر میں ایک اچھا کام لگتا تھا مگر ملکی معیشت اور سیاست پر اس کے منفی اثرات کی وجہ سے  ایک قابلِ تنقید کام قرار دیا جا سکتا ہے۔ اندرون ملک اور بیرون ملک سیاسی مخالفین کے قتل پر خاموشی،کہ جس سے معاشرے پر نہایت  منفی اثرات مرتب ہوئے۔ ہاشمی رفسنجانی حکومت کے اس اقدام پر لب اعتراض کھولنے میں ناکام رہا۔

آخری گیارہ سالوں میں ہاشمی رفسنجانی نے جو اہم کام کئے درج ذیل ہیں: رفسنجانی نے 2006 کے صدارتی انتخابات کے نتائج پر شدید اعتراض کرتے ہوئے ہوئے لکھا کہ "حکومتی سطح پر ہونے والے بعض اقدامات اور منظم دخالتوں کی وجہ سے انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے"۔ ہاشمی رفسنجانی نے  عوام دوستی کا سب سے کھلا اظہار 17 جولائی 2009 کو اپنے جمعہ کے خطبے میں کیا۔انہوں نے گارڈین کونسل پر تنقید کرتے ہوئے 12 جون 2009 کے صدارتی انتخابات کے نتائج کو عوام کی نگاہ سے  مشکوک اور تردید آمیز قرار دیا اور حکام بالا سے مطالبہ کیا کہ احتجاج کے دوران گرفتار ہونے  والے سیاسی قیدیوں کو جلد از جلد رہا کرکے حکومت  عوام کے درمیان اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرے۔ اس حق گوئی کے جرم میں ہاشمی کو مرنے تک نماز جمعہ کا خطبہ دینے سے محروم کر دیا گیا اور حکومت کے حامیوں نے میرحسین موسوی، کروبی اور خاتمی کے ساتھ انہیں بھی "سرداران فساد" میں سے ایک قرار دیتے ہوئے ان کی شخصیت پر بھی خوب کیچڑ اچھالا۔

دفتر رہبری کی جانب سے پریشر کی وجہ سے 2010 میں ہاشمی رفسنجانی کو ایکسپرٹ کونسل کے چیئرمین کی امیدواروں کی لسٹ سے بھی کنارہ کشی اختیار کرنا پڑی۔ نظام جمہوری اسلامی کا ایک اہم رکن ہونے کے باوجود ہاشمی کو آقائے خامنہ ای کی جانب سے منصوب ہونے والے گارڈین کونسل کے توسط سے 2013  کے صدارتی انتخابات کی  امیدواروں کے زمرے سے بھی خارج کر دیا گیا۔

سن 2015 میں ہاشمی رفسنجانی  صوبہ تہران سے سب سے زیادہ ووٹ لے کر ایکسپرٹ کونسل میں داخل ہوئے مگر دفتر رہبری کی جانب ہونے والی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ  ہاشمی چیئرمین ایکسپرٹ کونسل نہ بن سکا بلکہ سب سے کم ووٹ لے کر کونسل میں آنے والے شخص کو صرف رہبر سے وفاداری کے عوض ایکسپرٹ کونسل کا چیئرمین قرار دیا گیا تاکہ رہبر کی زیرنگرانی چلنے والے اس کونسل میں عوامی رائے اور ووٹ کی کم اہمیتی سب پر عیاں ہوجائے۔

رفسنجانی کے اہم ترین کاموں میں سے ایک ان ذاتی یادداشتیں ہیں جو 14 جلدوں میں شائع ہوچکی ہیں۔ جمہوری اسلامی حکومت میں صف اول میں قرار پانے کی وجہ سے آج اس 35 سالہ حکومت کو ہاشمی کی ڈائری کی تحریروں کے آئینے میں جانچا جا سکتا ہے۔

رفسنجانی آخری دن تک جمہوری اسلامی کے بانی آقائے خمینی کی سیاست اور افکار کے حامی رہے ہیں اور ان کا خیال تھا کہ خط امام پر واپس آکر ہی اس ملک کو بچایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح وہ آیت اللہ خمینی کے خاندان میں اقتدار کی پرامن منتقلی کے بھی شدید خواہش مند تھے۔ ولایت فقیہ کے حوالے سے "انتخابی ولایت" (آیت اللہ منتظری کا نظریہ) کے حامی تھے ۔بہرحال ایران کی سیاسی فضا  ایک واقع بین ،تجربہ کار اور آموزدہ سیاست دان سے محروم ہوا جس کی آج  شاید ایران کو پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت تھی۔

باتشکر از ویب سایت فارسی دکتر محسن کدیور

کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں