ہفتہ، 30 جنوری، 2016

اقتصادی پابندی کا خاتمہ – کس قیمت پر؟ دوسرا جام زہر!

شیطان بزرگ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا اب سپریم لیڈر کو بھی اچھا لگنے لگا ہے!؟
رہبر انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ خامنہ  ای نے آج سے دس سال پہلے مغرب کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے کہا تھا کہ جو لوگ امریکہ ساتھ مذاکرات کی بات کرتے ہیں وہ غیرت اور سیاست کی الف ب سے بے خبر ہیں، لیکن تقریباً دس سال گزرنے کے بعد اندرون خانہ اپنی کمزور پوزیشن سے مجبور ہوکر الف بائے غیرت کو یکسر بھلاتے ہوئے روحانی  حکومت کی اس جدوجہد کا سہرا اپنے سر لینے کی کوشش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
 کتنی عبرتناک بات ہے کہ ایران عراق جنگ میں جس وقت ایران کا پلہ بھاری تھااور ساری دنیا نے آیت اللہ خمینی سے تمام نقصانات کی تلافی کے وعدے کے ساتھ جنگ بندی کے لئے ہاتھ جوڑا تو آیت اللہ خمینی نے نہایت حقارت سے ان کی گزارش ٹھکرا دی تھی اور ساری دنیا پر اپنی حکومت قائم ہونے تک جنگ جاری رکھنے  کا عندیہ دیا تھا۔ جنگ جاری رہا اور بہت جلد وہ دن بھی آگیا جب میدان کا نقشہ بدل گیا اور جمہوری اسلامی ایران کو شدید شکست اور پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔ تب آیت اللہ خمینی کے ہوش ٹھکانے آئے اور  اقوام متحدہ کی ذلت آمیز شرائط کو بھی تسلیم کرتے ہوئے جنگ بندی کے "جامِ زہر" کو پی لیا ۔
آج آیت اللہ خامنہ ای کی حالت بھی اس سے مختلف نہیں۔ پچیس سال کی شدید مخالفت کے بعد آج عالمی کمیونٹی کی ذلت آمیز شرائط کے ساتھ ایٹمی معاہدے کو قبول کرنے کے سوا انہیں کوئی اور چارہ نظر نہیں آتا۔ لگتا ہے کہ زہر کا پیالہ نوش کرنے کی  باری اب آقائے خامنہ ای کی ہےجسے دنیا کی تاریخ "ایٹمی مذاکرات  کا جامِ زہر " کے نام سے یاد رکھے گی۔
ماضی میں آقائے خامنہ کے نزدیک رہنے والے دانشور صحافی محمد نوری زاد کے بقول : "موجودہ حالات ایرانی سپریم لیڈر کے لئے  سنگین مشکلات کا باعث بنے ہیں۔ خامنہ ای حقیقی معنوں میں ایک بند گلی میں پھنس چکے ہیں جہاں سے وہ آگے جاسکتے  ہیں اور نہ ہی پیچھے پلٹ سکتے ہیں۔"
یاد رہے کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی رپورٹس کے مطابق جوہری پروگرام پر "لوزان" میں ہونے والے مذاکرات میں مغربی ملکوں نے تہران کو یورینیم افزودگی میں کمی کرنے کے ساتھ ساتھ حساس نوعیت کی جوہری اور فوجی تنصیبات کے معائنے پر بھی قائل کرلیا تھا۔ ایرانی مذاکراتی ٹیم نے مغرب اورامریکا کی یہ شرائط مان لی تھیں لیکن سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ کا موقف اس کے برعکس تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ حساس تنصیبات اور ملٹری تنصیبات کی چھان بین کا کوئی جواز نہیں ہے۔
مگرآقائے خامنہ ای کی فریاد نقارخانے میں طوطی کی آواز بن گئی اور مذاکرات میں ایرانی ٹیم نے مغرب کی تمام شرائط کو من و عن تسلیم کرتے ہوئے  نہ صرف چھان بین بلکہ براہ راست نظارت کو بھی قبول کرکے اس مذاکرات کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔
مذاکراتی ٹیم کی ان کاوشوں پر آقائے خامنہ ای اور ان کے مصاحب کافی سیخ پا نظر آتے ہیں۔ مجلس شورائے اسلامی کے ممبر اور سپریم لیڈر کے مصاحب خاص آقائے محمود نبویان نے اپنی ایک تقریر میں مذاکراتی ٹیم کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مذاکرات کو "ملک کے ساتھ خیانت" قرار دیا اور اپنی تقریر میں کئی بار دہرایا کہ "یہ سراسر خیانت ہے"۔ انہوں نے روحانی حکومت کو لعنت و ملامت کرتے ہوئے یہ اعتراف کیا کہ مغربی ملکوں کی یہ نظارت صرف ایٹمی تنصیبات تک ہی محدود نہیں بلکہ معائنے کی خاطر انہیں ہر وقت اور ہرجگہ دورہ کرنے کی اجازت بھی دے دی گئی ہے۔
آئیے ذیل میں نبویان کی گفتگو میں بیان شدہ اہم باتوں کو ترتیب وار دیکھتے ہیں:
·        اس مذاکرات کی دو خصوصیات ہیں:
1۔ آج کے بعد یہ نظارت صرف ایٹمی تنصیبات تک محدود نہ ہوگی۔
2۔ پورے ایران میں جس جگہ چاہیں اور جب چاہیں انٹرنیشنل ایجنسی معائنہ کا حق رکھتی ہے۔
·        انٹرنیشنل ایٹامک اینرجی ایجنسی کو یہ اجازت دی جائے گی کہ اپنی نظارت میں جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کرے۔( یعنی آج کے بعد نصب شدہ کیمرے آف لائن نہیں ہونگے بلکہ آن لائن ہونگے  جس کا مطلب یہ ہے کہ ایجنسی والے باہر ملکوں  میں بیٹھ کر ہماری تنصیبات کے اندر ہونے والی تمام نقل و حرکت پر  براہ راست نظر رکھ سکے گی اور کوئی بھی کارروائی ان سے پوشیدہ نہ رہے گی۔)
·        لوزان کے مذاکرات میں ایرانی مذاکراتی ٹیم بیشتر دسترسی (Enhanced Access) کا وعدہ بھی  دے کر آئی ہے، جبکہ اس سے پہلے بیشتر نظارت (Enhanced monitoring) کی بات زیر بحث تھی۔ عالمی کمینونٹی بیشتر دسترسی کس لئے چاہتی ہے؟ بیشتر دسترسی وہ اس لئے چاہتی ہے تاکہ اُن کے بقول گزشتہ اور موجودہ تنازعات کو شفاف کر سکے۔ گزشتہ اور موجودہ تنازعات کا حل صرف اس صورت میں امکان پذیر ہے جب ایران ایجنسی کی تمام ہدایات پر عمل کرے اور اس کے مطالبات پورا کرے۔ ان مطالبات میں درج ذیل انتہائی حساس نکات شامل ہیں کہ ایرانی مذاکراتی ٹیم لوزان میں جن کو پورا کرنے کے معاہدے پر دستخط کر آئی ہے۔
1۔  تمام ایٹمی سائنس دانوں کو ایجنسی کے حوالے کرنا ہوگا۔
2۔  ایجنسی کے پیش نظر تمام فوجی تنصیبات، تمام میزائیل ٹیکنالوجی، تمام جنگی سازوسامان اورتمام فوجی ماہرین کو فوری طور پر ایجنسی کے حوالے کرنا ہوگا۔

کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں