اتوار، 21 فروری، 2016

ولی فقیہ کے جمہوری اسلامی میں عقل کا استعمال ممنوع !

مجتہد و فقیہ استاد حوزہ علمیہ آیت اللہ محمد رضا نکونام کی صاف گوئی سے جمہوری اسلامی کے اعلیٰ ایوانوں میں بیٹھنے والے ناخوش نظر آتے ہیں۔ سو سے زیادہ کتابوں اور مقالات کا مصنف یہ نڈر اور بے باک عالم دین بغیر کسی جرم وخطا کے ایک سال سے قید وبند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں۔  اب تازہ ترین خبروں کے مطابق عدالت نے ان کی سزا میں توسیع دیتے ہوئے اسے دو سال سے بڑھا کر پانچ سال قید میں تبدیل کر دیا ہے۔
حالانکہ حوزہ علمیہ کے اساتذہ، طلاب اور فاضل علماء اور ان کے شاگردوں نے کئی بار سپریم لیڈر اور دوسرے اعلیٰ حکام کو اس صورتحال سے باخبر کرنے کے لئے متعدد بار باقاعدہ مکتوبات لکھے اور ان مکتوبات میں انہیں اس بات سے آگاہ کیا کہ باقی علماء سے متفاوت اور ناقدانہ سوچ رکھنے کے جرم میں حوزہ علمیہ کے ایک نمایاں چہرے کو قید کرنے کا عمل ناگوار نتائج کو اپنے ساتھ لا سکتا ہے۔
مگر سپریم لیڈر اور ان کے حواریوں نے نہ صرف ان علماء کی درخواست کو اہمیت نہیں دی بلکہ روحانیت کورٹ کے ذریعے اس بزرگوار عالم دین کے فقہی رسالوں کی نشر و اشاعت اور تقسیم پر پابندی لگوائی اور پورے ملک سے انہیں ضبط کرنے کا حکم بھی جاری کروایا۔
مسلمان ماڈرن اور دیندار ہوتا ہے جاہل نہیں!
حوزہ علمیہ کی اس ممتاز شخصیت کو پہلی بار جنوری 2015 میں بغیر  وجہ بتائے گرفتار کرکے تہران کے اوین جیل روانہ کر دیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں بعض ذرائع کا خیال ہے کہ ان کی گرفتاری کی وجہ شاید اُن کی وہ تقریر ہے جس میں انہوں نے آیت اللہ مکارم شیرازی پر تنقید کی تھی۔
یاد رہے کہ آیت اللہ مکارم شیرازی نے، کہ جن کا شمار سپریم لیڈر کے خاص مصاحب میں ہوتا ہے، کچھ عرصہ پہلے ایران میں انٹرنیٹ کے تیز رفتار ہونے پر احتجاج کرتے ہوئے اسے شریعت کے خلاف قرار دیا تھا۔ مکارم شیرازی سے منسوب ان بیانات کے نشر ہونے کے کچھ دنوں بعد آیت اللہ نکونام نے ماڈرن ٹیکنالوجی کو حرام قرار دینے والوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا تھا:
میں نے اپنے طلبہ سے کہہ رکھا ہے کہ آپ پر واجب ہے ہر حال میں لیپ ٹاپ یا ٹیبلیٹ خریدیں خواہ اس کے لئے آپ کو اپنے کمرے کا فرش بھی بیچنا پڑے۔ مسلمان وہ ہے جو ماڈرن ہو، دیندار ہو، نہ کہ جاہل اور گنوار ہو۔
دقیانوسی خیالات آخر کب تک!
یہ روشن خیال عالم دین حوزہ علمیہ میں رائج دقیانوسی خیالات سے بے زار نظر آتے ہیں۔ ماڈرن ٹیکنالوجی سے آشنا نہ ہونے کی وجہ سے انٹرنیٹ کی تیز رفتاری پر اعتراض کرنے والوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ کی سرعت نہ صرف زیادہ نہیں ہے بلکہ اس میں افزائش کی ضرورت بھی ہے کیونکہ یہ ہماری نئی نسل کی تعلیمی ضرورت ہے۔ ان کا خیال ہے کہ انٹرنیٹ ایک عالمی ٹرین ہے جس پر سوار ہونا وقت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں کنایتاً آقائے مکارم شیرازی کے بیان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
انٹرنیٹ کے گلے پر اتنا زور ڈالنے کے باوجود آج انٹرنیٹ کی رفتار چھکڑے کے برابر ہے، ہمارے چھوٹے بچوں کو بھی انٹرنیٹ اور کمپیوٹر استعمال کرنا آتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ہمیں کیڑے کی چال چلنے کی بجائے، اس عالمی ٹرین پر  سوار ہوجانا چاہئے۔ انٹرنیٹ ایک طاقت ہے، جب گدھے پر مفت کی سواری مل رہی ہے تو کود کر اس پر سوار ہوجائیے  اور دنیا کی سیر کیجئے۔ اگر اس پر سوار ہونا نہیں آتا تو اپنے کام سے کام رکھیئے۔ لیکن یہ صاحب چونکہ نہیں جانتا کہ یہ سسٹم، یہ انٹرنیٹ اور یہ فیس بُک کیسے چلایا جاتا ہے، کہتا ہے کہ یہ سب حرام ہے۔
گرفتاری در گرفتاری
انہیں مارچ 2015 میں، دماغی سٹروک کی شدید علالت کی وجہ سے جیل سے آزادی ملی تھی لیکن روزنامہ قانون میں ایک مقالہ لکھنے پر اپریل 2015 میں حکومتی اہلکاروں نے اس مجتہد کے گھر پر دھاوا بول دیا اور گھر میں توڑپھوڑ کے بعد انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا حالانکہ وہ ابھی تک اپنی بیماری سے صحت یاب بھی نہیں ہوئے تھے۔
آیت اللہ نکوم نام اس وقت سے لے کر اب تک جیل میں ہیں جہاں ان پر خصوصی سختی کی جاتی ہے۔ جیل حکام اس بہانے سے کہ وہ قیدیوں کا لباس پہنے سے انکار کرتے ہیں، اپنے گھر والوں سے ملاقات کرنے اور علاج معالجہ کے لئے ہسپتال بھیجے جانے میں مانع ہو رہے ہیں۔
احمدی نژاد کی بچگانہ حکمت عملی
یہ بات قابل ذکر ہے کہ حوزہ علمیہ قم کے اس ماہر اقتصادیات استاد نے احمدی نژاد حکومت کی طرف سے نقدی کی شکل میں عوام کو دی جانے والے امداد کے پروگرام پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا:
عوام میں نقد پیسے بانٹنا معیشت کے میدان میں حکومت کے پاس کسی قسم کی حکمت عملی کے نہ ہونے کی نشانی ہے۔ یہ کام ایسا ہی ہے جیسے ایک کنبے کا سربراہ اپنی اولاد کے مستقبل کو سنوارنے کے لئے منصوبہ بندی کرنے کی بجائے پیسوں کو ان کے سروں پر نچھاور کردے یا اُن والدین کی طرح ہے جو برسر روزگار ہونے کے باوجود اپنے بچوں کو دوپہر میں ڈھنگ کا کھانا دینے کی بجائے تھوڑے پیسے دے کر کہیں کہ جاؤ سینڈویچ کھالو۔

کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں